چند دنوں سے تواتر سے خبریں آرہی ہیں کہ ہنڈا اور ٹویوٹا والے اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر غور کررہے ہیں ۔
جہاں تک بات ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی جیسی کمپنیوں کی ہے،تو آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے بیس برس قبل پاکستان میں ٹیلی کوم کمپنیوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب آپ کو کال ریسیو کرنے پر بھی فی منٹ چھ روپے چارج کئے جاتے تھے۔ اس وقت ڈالر 46 روپے کا ہوتا تھا، یعنی آج کے حساب سے تقریباً 20 روپے فی منٹ کال سننے کے ۔ ۔ ۔ آؤٹ گوئنگ ڈبل یعنی چالیس روپے فی منٹ۔
پھر آہستہ آہستہ دوسری کمپنیاں آتی گئیں تو ان کی اجارہ داری ختم ہوتی گئی۔ مقابلے کا رحجان شروع ہوا تو قیمتیں دھڑام سے نیچے آن گری۔ کبھی وہ وقت تھا جب آٹھ ہزار روپے میں صرف کنکشن ملا کرتا تھا، پھر وہ وقت بھی آیا جب بیس روپے میں کنکشن ملنا شروع ہوگیا۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری بھی ہمیشہ اجارہ داری کی بنیاد پر چلتی رہی اور بدقسمتی سے اس میں مقابلے کی فضا اس طرح پیدا نہ ہوسکی جیسی ٹیلی کمیونیکشن سیکٹر میں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑیوں کی کوالٹی تو شاید دنیا میں سب سے گھٹیا رہی، لیکن قیمتیں ہر سال بڑھائی جاتی رہیں۔
آٹو مافیا اتنا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ اس نے کئی دہائیوں تک ہر آنے والی حکومت پر پریشر ڈال کر ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی لگوائے رکھی تاکہ لوگوں کو سستی لیکن مضبوط گاڑیاں نہ مل سکیں۔
اب چونکہ حکومت نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی ہے، روپے کی قیمت بھی مصنوعی طریقے سے قابو نہیں کی جارہی، چنانچہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری، جو کہ پاکستان میں صرف اسمبلنگ ہی کرتی ہے، اسے اپنی قیمتیں بڑھانا پڑیں ۔ ۔ ۔ جس کی وجہ سے سیل میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اب ان کا پرافٹ کم ہونا شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری کا اگر جائزہ لیں تو شاید یہ دنیا کی سب سے کمزور ترین آٹو مارکیٹ ہے۔ ہمارے ہاں آبادی کے سائز کے تناسب سے گاڑی خریدنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی سڑکیں بھی چوک کرچکی ہیں ۔ ۔ ۔ ٹریفک اتنی بے قابو ہوچکی کہ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جن کسی سے کنٹرول نہیں ہوسکے گا۔ سوچیں ذرا اگر گاڑیاں خریدنے والوں کی تعداد میں صرف دس فیصد، جی ہاں، صرف دس فیصد اضافہ ہوجائے تو ہماری سڑکیں مکمل طور پر پیک ہوجائیں گی۔
پاکستان میں سالانہ صرف دو لاکھ پسنجر گاڑیاں اسمبل ہوتی ہیں، اس کے مقابلے میں انڈیا میں سالانہ چالیس لاکھ سے زائد گاڑیاں بنائی جاتی ہیں، حالانکہ ان کی آبادی ہم سے صرف چھ گنا زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انڈیا میں گاڑیاں مکمل طور پر مقامی انڈسٹری میں تیار ہوتی ہیں، ان کے تمام پرزہ جات امپورٹ کی بجائے مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ انڈیا میں کیا اور ہونڈائے کی سولہ سو سی سی گاڑی پاکستان کی ہزار سی سی کلٹس سے سستی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ فیچر، پرفارمنس اور کوالٹی کے حساب سے کلٹس کچرا ہے۔
ہماری حکومتوں نے پچھے ستر برسوں میں جھک ہی ماری۔ آٹو انڈسٹری سے حکمران رشوت لے کر ان کے حق میں قانون سازی کرتے آئے اور مقامی طور پر انڈسٹری کو ڈویلپ کرنے کے حوالے سے کوئی پالیسی نہ بنا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج آلٹو جیسی تھکڑ گاڑی بھی پندرہ لاکھ سے اوپر ہے۔
ایک طرف ہمارا انفراسٹرکچر ناکافی، دوسری طرف ہمیں تیل کی امپورٹ پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے، تیسری طرف ہمیں گاڑیاں بہت مہنگی ملتی ہیں، چوتھی طرف ہماری عوام کو ٹریفک کا شعور ہی نہیں ۔ ۔ ۔
میرے خیال میں ہمیں آٹو سیکٹر کو بھول کر سب سے پہلے بنیادی چیزوں کی طرف توجہ دینا ہوگی۔سب سے پہلے تو گاڑیوں کے پارٹس کو لوکل انڈسٹری میں تیار کرنے کی پالیسی بنائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ عوام میں ٹریفک شعور بیدار کرنے پر سنجیدہ کام کیا جائے، ہوسکے تو اسے سکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، چالان اور رجسٹریشن کا پراسیس شفاف اور ایمانداری سے چلایا جائے۔ پھر جا کر اگلے دس سال بعد ہماری آٹو انڈسٹری نیچرل طریقے سے ترقی کرنا شروع کرسکتی ہے ۔ ۔ ۔
قرضہ لے کر روپے کی قیمت مصنوعی کنٹرول کرکے گاڑیاں خریدنا، پھر مزید قرض لے کر تیل امپورٹ کرنا تاکہ یہ گاڑیاں چلائی جاسکیں، پھر سڑکوں کے نام پر بے مقصد لیکن مہنگی موٹرویز اور میٹروز بنا کر پانامہ میں حرام کی کمائی جمع کرنا، پھر ان گاڑیوں کو سڑکوں پر لا کر جانوروں کی طرح چلانا ۔ ۔ ۔
اس سے تو بہتر ہے کہ ہم کھوتا ریڑھا استعمال کرنا شروع کردیں ۔ ۔ ۔
چند دنوں سے تواتر سے خبریں آرہی ہیں کہ ہنڈا اور ٹویوٹا والے اپنی فیکٹریاں بند کرنے پر غور کررہے ہیں اور یہ خبریں شئیر کرنے والے وہ پٹواری ہیں جنہوں نے ساری عمر گاڑی تو دور، موٹرسائکل بھی نہیں خریدی، ساری عمر یا تو وہ کسی اور کی سائکل کے ڈنڈے پر بیٹھ کر سفر کرتے رہے، یا پھر اپنی بغیر گدی کی سائکل پر زندگی کا سفر طے کرتے آئے۔
جہاں تک بات ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی جیسی کمپنیوں کی ہے، میری دعا ہے کہ کل کی بجائے یہ کمپنیاں آج ہی بند ہوجائیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آج سے بیس برس قبل پاکستان میں ٹیلی کوم کمپنیوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب آپ کو کال ریسیو کرنے پر بھی فی منٹ چھ روپے چارج کئے جاتے تھے۔ اس وقت ڈالر 46 روپے کا ہوتا تھا، یعنی آج کے حساب سے تقریباً 20 روپے فی منٹ کال سننے کے ۔ ۔ ۔ آؤٹ گوئنگ ڈبل یعنی چالیس روپے فی منٹ۔
پھر آہستہ آہستہ دوسری کمپنیاں آتی گئیں تو ان کی اجارہ داری ختم ہوتی گئی۔ مقابلے کا رحجان شروع ہوا تو قیمتیں دھڑام سے نیچے آن گری۔ کبھی وہ وقت تھا جب آٹھ ہزار روپے میں صرف کنکشن ملا کرتا تھا، پھر وہ وقت بھی آیا جب بیس روپے میں کنکشن ملنا شروع ہوگیا۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری بھی ہمیشہ اجارہ داری کی بنیاد پر چلتی رہی اور بدقسمتی سے اس میں مقابلے کی فضا اس طرح پیدا نہ ہوسکی جیسی ٹیلی کمیونیکشن سیکٹر میں ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گاڑیوں کی کوالٹی تو شاید دنیا میں سب سے گھٹیا رہی، لیکن قیمتیں ہر سال بڑھائی جاتی رہیں۔
آٹو مافیا اتنا مضبوط ہوا کرتا تھا کہ اس نے کئی دہائیوں تک ہر آنے والی حکومت پر پریشر ڈال کر ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی امپورٹ پر پابندی لگوائے رکھی تاکہ لوگوں کو سستی لیکن مضبوط گاڑیاں نہ مل سکیں۔
اب چونکہ حکومت نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی ہے، روپے کی قیمت بھی مصنوعی طریقے سے قابو نہیں کی جارہی، چنانچہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری، جو کہ پاکستان میں صرف اسمبلنگ ہی کرتی ہے، اسے اپنی قیمتیں بڑھانا پڑیں ۔ ۔ ۔ جس کی وجہ سے سیل میں کمی آنا شروع ہوگئی اور اب ان کا پرافٹ کم ہونا شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان کی آٹو انڈسٹری کا اگر جائزہ لیں تو شاید یہ دنیا کی سب سے کمزور ترین آٹو مارکیٹ ہے۔ ہمارے ہاں آبادی کے سائز کے تناسب سے گاڑی خریدنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے، لیکن اس کے باوجود حالت یہ ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی سڑکیں بھی چوک کرچکی ہیں ۔ ۔ ۔ ٹریفک اتنی بے قابو ہوچکی کہ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جن کسی سے کنٹرول نہیں ہوسکے گا۔ سوچیں ذرا اگر گاڑیاں خریدنے والوں کی تعداد میں صرف دس فیصد، جی ہاں، صرف دس فیصد اضافہ ہوجائے تو ہماری سڑکیں مکمل طور پر پیک ہوجائیں گی۔
پاکستان میں سالانہ صرف دو لاکھ پسنجر گاڑیاں اسمبل ہوتی ہیں، اس کے مقابلے میں انڈیا میں سالانہ چالیس لاکھ سے زائد گاڑیاں بنائی جاتی ہیں، حالانکہ ان کی آبادی ہم سے صرف چھ گنا زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ انڈیا میں گاڑیاں مکمل طور پر مقامی انڈسٹری میں تیار ہوتی ہیں، ان کے تمام پرزہ جات امپورٹ کی بجائے مقامی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ انڈیا میں کیا اور ہونڈائے کی سولہ سو سی سی گاڑی پاکستان کی ہزار سی سی کلٹس سے سستی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ فیچر، پرفارمنس اور کوالٹی کے حساب سے کلٹس کچرا ہے۔
ہماری حکومتوں نے پچھے ستر برسوں میں جھک ہی ماری۔ آٹو انڈسٹری سے حکمران رشوت لے کر ان کے حق میں قانون سازی کرتے آئے اور مقامی طور پر انڈسٹری کو ڈویلپ کرنے کے حوالے سے کوئی پالیسی نہ بنا سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج آلٹو جیسی تھکڑ گاڑی بھی پندرہ لاکھ سے اوپر ہے۔
ایک طرف ہمارا انفراسٹرکچر ناکافی، دوسری طرف ہمیں تیل کی امپورٹ پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے، تیسری طرف ہمیں گاڑیاں بہت مہنگی ملتی ہیں، چوتھی طرف ہماری عوام کو ٹریفک کا شعور ہی نہیں ۔ ۔ ۔
میرے خیال میں ہمیں آٹو سیکٹر کو بھول کر سب سے پہلے بنیادی چیزوں کی طرف توجہ دینا ہوگی۔سب سے پہلے تو گاڑیوں کے پارٹس کو لوکل انڈسٹری میں تیار کرنے کی پالیسی بنائی جائے، اس کے ساتھ ساتھ عوام میں ٹریفک شعور بیدار کرنے پر سنجیدہ کام کیا جائے، ہوسکے تو اسے سکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے، چالان اور رجسٹریشن کا پراسیس شفاف اور ایمانداری سے چلایا جائے۔ پھر جا کر اگلے دس سال بعد ہماری آٹو انڈسٹری نیچرل طریقے سے ترقی کرنا شروع کرسکتی ہے ۔ ۔ ۔
قرضہ لے کر روپے کی قیمت مصنوعی کنٹرول کرکے گاڑیاں خریدنا، پھر مزید قرض لے کر تیل امپورٹ کرنا تاکہ یہ گاڑیاں چلائی جاسکیں، پھر سڑکوں کے نام پر بے مقصد لیکن مہنگی موٹرویز اور میٹروز بنا کر پانامہ میں حرام کی کمائی جمع کرنا، پھر ان گاڑیوں کو سڑکوں پر لا کر جانوروں کی طرح چلانا ۔ ۔ ۔
اس سے تو بہتر ہے کہ ہم کھوتا ریڑھا استعمال کرنا شروع کردیں ۔ ۔ ۔
رہی بات ان پانچ ہزار ملازمین کی جنہیں آٹو انڈسٹری سے نکالنے کی خبریں آرہی ہیں، تو ان ملازمین کو چاہیئے کہ پلمبنگ، مکینک، الیکٹریشن کے شعبوں میں فری لانسر کے طور پر کام کرنا شروع کریں، جتنی تنخواہ اس وقت کما رہے ہیں، اس سے کئی گنا آمدن اپنے کاروبار میں بنانا شروع کردیں گے!!!
Source: FB post of Baba Kooda